اگرچہ جُدائی ہے درمیان اب کے برس
کیا پھر بھی تم مجھے بھول پاوَ گے
میرے بغیر جینے کی تمہیں عادت ہی نہیں
میرے ساتھ کے بنا تم کیسے جی پاوَ گے
میں تجھے بھول جاوَں یہ ممکن نہیں
تم مجھے بھول جاوَ یہ کیسے کر پاوَ گے
مجھے دیکھتے ہی تیرے چہرے پر خوشی اویزاں ہوتی تھی
میری جُدائی میں بھی کیا وہ حسیں پل دہرا پاوَ گے
جان جاوَ نہ خود نہ مجھے یوں ستاوَ
اشکوں کے طوفان کو کب تک چھپا پاوَ گے
میں خود بھی تجھ بن جینے کا تصور نہیں کر سکتا
ذوالفقار کی جُدائی کا کرب تم کس طرح سہہ پاوَ گے