اس نے کر دیا جو آنے سے ہی انکار
ایسی محفل میں بیٹھنا سنورنا کیسا
بات ہی جب نہیں کرنی اس نے
پھر بات کا بنٌا اور بگڑنا کیسا
میں تو ڈوبا ہوں خود اس کے تصور میں
ایسے دریا میں ڈوب کر ، ابھرنا کیسا
ایک نکتہ پر جب آگئے ہیں سارے خیال
اب میری سوچ کا بکھرنا کیسا
محبت کے سمندر کا جو ہو گیا عادی
اب کسی بحر میں نعمان ،اترنا کیسا