رات کے اس پہر
ہم گھر سے نکل آئے
سارا شہر سو رہا تھا
ایکسوائے ہمارے
بے مقصد ہی یونہی
آوارگی پر دل اُکسا رہا تھا
نیندیا بھی روٹھی روٹھی سی تھی
من بھی تو گھر میں لگ نہیں رہا تھا
سو ہم تنہا ہی گھر سے چل پڑے
گھپ تاریک اماوس کی رات تھی
بدلیوں نے سارا آسمان ڈھکا ہوا تھا
چار سو میرے
ایک عجب سی خاموشی چھائی تھی
مدھم ٹمٹماتے دیے کی مانند
اسٹریٹ لائیٹس
ماحول کو ناکام روشن کرنے کی
کوشش کر رہی تھی
پر تاریکی تھی کہ
اور بڑھ رہی تھی
زرد پتے قدموں تلے میرے
چُر مُرا رہے تھے
بس انہی کی دم توڑتی
چیخیں تھیں فقط
ورنہ چاروں طرف خاموشی چھائی تھی
سڑک بھی سنسان تھی اور
میرے اندر بھی ایک سناٹا سا تھا
ان لمحوں میں سنگ فقط
میرا سایا تھا
بے مقصد ہی
یونہی میں چل رہی تھی
ہر سوچ سے دامن بچا کر
خود میں ہی کھوئی کھوئی سی
یادوں سے پیچھا چھڑانے کی
کوشش کر رہی تھی
نہ میں کچھ
اچھا سوچ رہی تھی
نہ برا سوچ رہی تھی
شاید خود سے ہی بھاگ رہی تھی
ہلکی بوندا باندی
اب شروع ہوچکی تھی
کبھی کبھی بادل بھی گرج کر
اپنی موجودگی کا اعلان کر رہے تھے
جب زور پکڑا آسمان پر
گرتے پانی کے قطروں نے
رفتار ہماری سست پڑنے لگی
بارش ہمیں بھگونے لگی
من پر چھائی یاسیت
چھٹنے لگی
ہمیں پرسکون کرنے لگی
کچھ دیر وہیں رک کر
ہم بارش میں بھیگتے رہے
من کو بھی سیراب کرتے رہے
پھر واپسی کی راہ لی
مگر بارش یونہی برستی رہی
یونہی برستی رہی ۔۔۔۔