اک وہ ہی حسِین نہ تھا زمانے میں
یہاں تو کئی حسِین تھے زمانے میں
مگر دل کا کیا کریں دوست
یہ تو اٹکا رہا حسن کے فسانے میں
ساقی نے آخر ہی پلا ہی ڈالا جامِ محبت
جب ہم گئے اس کے مئے خانے میں
محبت ہے وہ چیز جو چھپتی نہیں
اور لگے تھے ہم اس کو چھپانے میں
وہ صنم جس ہم نے بنایا تھا پتھر سے
وہ بیٹھا ہے آج خدا بن کہ بت خانے میں
جسے تھا ہی نہیں ہم سے کبھی پیار
ہم لگے تھے اُس شخص کو منانے میں
یہ حسن والے نہیں کرتے وفا
یہ عقل کون ڈالے اس احمد دیوانے میں