ایک چپ کھائے گئی ہے مجھ کو
آگہی ڈھائے گئی ہے مجھ کو
زندگی میرے سنورنے کے لیے
درد پہنائے گئی ہے مجھ کو
بے خودی آپ تلک لائی تھی
سو وہی لائے گئی ہے مجھ کو
آپ نے راکھ کیا اڑنے کو
خاک دفنائے گئی ہے مجھ کو
میرے ادراک کی مجبوری سے
بات بہلائے گئی ہے مجھ کو
چاند اس طور سے اترا شب میں
رات گہنائے گئی ہے مجھ کو