ایک کھلونا لگتا ہوں میں
کھیل تماشا لگتا ہوں میں
خود کو تھوڑا لگتا ہوں میں
تمہیں زیادہ لگتا ہوں میں
گھر میں امّی اور ابّا کا
بیٹی بیٹا لگتا ہوں میں
تیرے نقشِ قدم پہ چل کے
کتنا عمدہ لگتا ہوں میں
اس کو روپ دکھا کر اس کا
اک آئینہ لگتا ہوں میں
مجھ کو سجا لو پیشانی پر
جھومر سستا لگتا ہوں میں
میرے لب قرطاس و قلم ہیں
ویسے گونگا لگتا ہوں میں
خواب مِرے وہ دیکھے کیونکر
ٹوٹا پھوٹا لگتا ہوں میں
تتلی میرے پاس آتی ہے
اس کو گل سا لگتا ہوں میں