اے دل بتا تجھے بے گھر ہونا کیسا لگا
اپنے ہی شہر میں در بدر ہونا کیسا لگا
بتاؤ اے ساحل پہ کھڑے تماشائی دوستو
کشتیِ جان کا گرداب کی نظر ہونا کیسا لگا
جن لوگوں سے ملنا بھی گوارہ نہ تھا مجھے
انہی لوگوں کا آج ہمسفر ہونا کیسا لگا
تُو تو ڈھونڈتا پھرتا تھا دکانوں سے دستار
بتا اے بدن اب تجھے بے سر ہونا کیسا لگا