اے شاعرِ عشقِ بتاں آنکھوں کی بات کر
دن تو گزر ہی جائے گا راتوں کی بات کر
پہلے کبھی کہیں کہیں مقتل آباد تھے
اب ہو گئیں ترقّیاں لاکھوں کی بات کر
مُدّت ہوئی بچارے نے لقمہ نہیں چکھا
روٹی اچار بھُول جا فاقوں کی بات کر
تعویذ لکھتے لکھتے وہ لاکھوں کما گیا
پیری مریدی سیکھ لے گاہکوں کی بات کر
لکھنے لکھانے کے لئے درکار ہے اک عمر
ہفتے مہینے دن نہیں سالوں کی بات کر
عمرِ خضر بھی ہو اگر کیا فائدہ امید
فاقے ہی بڑھتے جائیں گے فاقوں کی بات کر