اے لڑکوں کیا کبھی سوچا ہے تم نے ؟
جانے ، انجانے - یا پھر شرارت میں
تم نے کتنی نادان آنکھوں میں
خواب سجائے ہوں گے اور پھر
کتنے خوابوں کے محل
پل بھر میں گرائے ہوں گے
کسی کی آنکھوں سے
کتنے ہی دریا بہائے ہوں گے
ابھی آیا کہہ کر ---- تم نے
کسی سے انتظار کے
کتنے دیپ جلوائے ہوں گے
رشتوں کے اصولوں میں
دبی اک لڑکی سے
وفا کا وعدہ لے کر
کتنے رشتے زندہ دفنائے ہوں گے
اور پھر ُاسی اک لڑکی کو
تنہا چھوڑ کر زمانے سے
کتنے الزام ٹہرائے ہوں گے
تمہاری بے ُرخی سے
اک معصوم کی محبت پے
کتنے زوال آئے ہوں گے
کیا کبھی سوچا ہے تم نے ؟
اور محبت کے دشمن زمانے نے
اپنے تلخ زبانوں سے
کسی کے دل پر
کتنے تیر چلائے ہوں گے
گلابی چہروں پے تم نے
کتنے زرد پتے بٹھائے ہوں گے
کیا کبھی سوچا ہے تم نے ؟
جینے کی عمر میں
کسی کو موت کے راہ دیکھائے ہوں گے
( یہ شاعری صرف ُان لڑکوں کے لیے ہیں ۔ جو محبت کو ٹائم پاس سمجھتے ہیں ۔ اور کسی کی زندگی برباد کر دتیے ہے )