اے میری زیست، میں بڑے طویل سفر میں ہوں
نروان جاں! نگار شام بے منزل شہر میں ہوں
میں غبار گرد ہوا کے ساتھ ساتھ
دشت و صحرا خاک مثل رہگزر میں ہوں
میں وارث گل ہوں کہ نہیں ہوں مگر
اے میری جاں! میں اسیر گل سحر میں ہوں
بس ال بار گیا تھا کوئے وصال میں مگر
میں اس کے بعد سے اہل ہجر میں ہوں
ایک اک کر کے کنارے ڈوبتے جاتے ہیں کیوں؟
میں الجھا ہوا لہر ساحل سمندر میں ہوں
مہر دونیم نہیں جاوید اپنا اپنا چاند
سراب جاں کار محبت وصل مہر میں ہوں