اے کاش کبھی تم سے ملاقات نہ ہوتی
دنیا پہ عیاں شدّتِ جذبات نہ ہوتی
ساقی نے نظر پھیری تو ہم پیشہ بھی بِگڑے
برسی ہے جو اب جم کے وہ برسات نہ ہوتی
انگور کی بیٹی نے بڑا قہر مچایا
کم بخت یہ نہ ہوتی تو خرافات نہ ہوتی
گر زہرہ جبینوں سے شناسائی نہ ہوتی
جو آج ہے ایسی مری اوقات نہ ہوتی
ہر خوف سے بڑھ کر ہے غمِ نارِ جہنمّ
یہ آگ نہ ہوتی تو مناجات نہ ہوتی
آئی تھی کسی بن میں میسّر مجھے جو رات
اے کاش کبھی ختم تری بات نہ ہوتی
گر حسن کے دل میں بھی آ جاتا کبھی رحم
امید کبھی عشق کو شہ مات نہ ہوتی