مستقل دیتا رہا زخم ستمگر کتنے
اور چبھو تا رہا ہر زخم پہ نشتر کتنے
آنکھوں نے اس کی فقط ایک جھلک دیکھی تھی
دل میں بر پا ہوئے اک آن میں محشر کتنے
وعدہ پرکھوں سے کیا تھا جو نبھایا میں نے
پیش خدمت میں ہوئے ورنہ تو ساغر کتنے
زور چلتا نہیں زر ۔ زور ۔ زمیں کا سب پر
ملکئہ حسن سے ہار ے ہیں سکند ر کتنے
گہری خاموش سی ان آنکھوں کی جھیلوں پہ نہ جا
لہریں ان جھیلوں میں مارے ہیں سمند ر کتنے
کارواں میرے سخن کا تو بصد ناز بڑھا
گرچہ حائل ہو ئے ہر گام پہ پتھر کتنے
دور تک دکھتی نہیں منزل خوشحالی حسن
یوں تو تبد یل ہو ئے ملک میں ر ہبر کتنے