بادل یہیں پے برسے گا
بادلوں کو برسنے کے لیے
کسی اجازت کی ضرورت تو نہیں ہوتی
مگر
میرا یہ دل کہتا ہے
بادلوں کو یہیں پہ برسنا ہوگا
بادل یہیں پہ برسے گا
کہ یہ دھرتی
کب سے
انتطار کی صلیب پر
قربان ہوتی رہی ہے
بے گناہوں کے خون سے
رنگین ہوتی رہی ہے
اس کی پہچان کا چہرہ
ہر لمحہ بگڑتا رہا ہے
درندگی، وحشت و بربریت کا
جشن ابلیسی برپا رہا ہے
مگر اب کے
میرا یہ دل کہتا ہے
امیدوں کا بادل
اپنے ساتھ
رحمتوں کے فرشتے لے کر
اس دھرتی کی تقدیر بدلنے کو آئیں گے
صبح روشن کا پیغام لے کر
جشن ابلیسی کے سیاہ نشان
مٹانے کو، نیا جہاں بسانے کو
مرجھائے بے بس چہروں کو
مسکراھٹ کی نوید دینے کے لیئے
بادلوں کو یہیں پہ برسنا ہوگا
بادل یہیں پہ برسے گا