بادلوں کے وسط میں دیکھا ایک ستارہ
مری آہ میں جیسے اُمید کی کرن
سائے کو اپنے چھولیتا ہوں اکثر
برسات و زمیں کا جیسے ہو ملن
تنہائی میں کھویا ہوں جیسے
باتوں میں کوئی محبوب سے مگن
صحراؤں کی لکیروں میں تاثیر ہے وہی
جو رکھتی ہے مرے ماتھے کی شکن