سمندر سے جب اٹھتا ہے پانی
جسم سے جیسے کھچتا ہے لہو
بادل کو اڑاتی پھرتی ہے ہوا
روح بھی جیسے بکھرتی جائے
کتنا گہرا مراسم ہے دیکھو
آدمی کا ابرو آب سے
موج ساحل کو چھو کے پلٹے
حال ماضی میں الجھ جائے
کیا اشتراک ابرو آدم
بارش برسے آنسو چھلکے
ابر سے ٹوٹی بارش ہو یا
آنکھ سے نکلا آنسو ہو
اک زمیں کی تپش مٹا جائے
اک روح ہری کر جاتا ہے
یہی تو وجہ اداسی ہے
جب کالی گھٹا کہیں چھاتی ہے
یا ٹوٹ کے بارش برستی ہے
تو رونے کو جی چاہتا ہے