دسمبر آ کے بھی چلا گیا بارش نہیں برسی
ہم انتظار ہی کرتے رہے بارش نہیں برسی
دھندلی دوپہروں سحر کے شب کے پہروں میں
صحن میں دیر تک بیٹھے مگر بارش نہیں برسی
شبیں کچھ سرد بھی اور پر خمار بھی بہت رہیں
بس اک بارش کی کمی تھی مگر بارش نہیں ہوسی
فلک پہ بدلیوں کی شوخ تتلیاں آتی جاتی رہیں
گھٹا چھا کر گزر گئی مگر بارش نہیں برسی
حسرت سے آسماں کی جانب دیکھتے رہے
نظر ترسی برس گئی مگر بارش نہیں برسی
دسمبر آ کے بھی چلا گیا بارش نہیں برسی
ہم انتظار ہی کرتے رہے بارش نہیں برسی