بارش کی خاموشی میں پکاروں کا ازدحام
جیسے ہو اندھیرے میں نظاروں کا ازدحام
لمبی اداس رات میں یادوں کی.....ریل پیل
آنکھوں میں جلتے بجھتے نگاروں کا ازدحام
اس شہر لا مکاں کا عجب المیہ ہے دوست
ہر اک مکاں میں قید....سہاروں کا ازدحام
یوں تو تلاش یار میں منزل کی کھوج عبث
ہر موڑ پر مگر ہے......اشاروں کا ازدحام
پرچھائیوں میں انکی میری ذات کھو گئی
بے فائدہ ہے زیست میں یاروں کا ازدحام
وہ طائر نغمہ سرا ہے میرے چمن میں
اسکی ہنسی میں قید بہاروں کا ازدحام
تو ماورائے شوق ہے وہ ماورائے درد
سدرہ تیری طلب میں ستاروں کا ازدحام