باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجا لیں تم کو
جی میں آتا ہے کے تعویذ بنا لیں تم کو
پھر تمھیں روز سنواریں تمھیں بڑھتا دیکھیں
کیوں نہ آنگن میں چنبیلی سا لگا لیں تم کو
جیسے بالوں میں کوئی پھول چُنا کرتا ہے
گھر کے گلدان میں پھولوں سا سجا لیں تم کو
کیا عجب خواہشیں اٹھتی ہیں ہمارے دل میں
کر کے منٌا سا ہواؤں میں اچھالیں تم کو
اس قدرٹوٹ کے تم پہ ہمیں پیارآتا ہے
اپنی بانہوں میں بھریں مار ہی ڈالیں تم کو
کبھی خوابوں کی طرح آنکھ کے پردے میں رہو
کبھی خواہش کی طرح دل میں بلا لیں تم کو
ہے تمہارے لئے کچھ ایسی عقیدت دل میں
اپنے ہاتھوں میں دعاؤں سا اٹھا لیں تم کو
جان دینے کی اجازت بھی نہیں دیتے ہو
ورنہ مر جائیں ابھی مر کے منا لیں تم کو
جس طرح رات کے سینے میں ہے مہتاب کا نور
اپنے تاریک مکانوں میں سجا لیں تم کو
اب تو بس ایک ہی خواہش ہے کسی موڑ پر تم
ہم کو بکھرے ہوئے مل جاؤ سنبھالیں تم کو