بانٹنا درد کا رشتہ کو آسان نہیں
یہ سرمایۂ جاں ہے کوی سامان نہیں
اپنے جزبات کی میں کیسے ترنمانی کروں
ایسا مضمون ہے جسکا کوی عنوان نہیں
درد کا رشتہ ہے جو ساتھ نبھاے ہر پل
اسکی فرقت میں اک پل کا بھی ارمان نہیں
امید وصل ہے صحرا میں سفر کا موجب
وصال یار نہیں جینے کا امکان نہیں
درد آنکھوں میں نہیں دل میں بسا رہتا ہے
قطرۂ اشک میرے غم کا ترجمان نہیں
ضبط کرنا ہی ہر غم کا ہے تریاق ارشادؔ
دور حضر میں ہے کون، پریشان نہیں