بتاؤ اب کیا کرنا ہے؟
Poet: نعمان صدیقی By: Noman Baqi Siddiqi, Karachiپیار کی کہانی میں
کس جگہ ٹھہرنا تھا
کس سے بات کرنی تھی
کس کے ساتھ چلنا تھا
کون سے وہ وعدے تھے
جن پہ جان دینا تھی
کس جگہ بکھرنا تھا
کس جگہ مُکرنا تھا
کس نے اس کہانی میں
کتنی دُور چلنا تھا
کس نے چڑھتے سورج کے
ساتھ ساتھ ڈھلنا تھا
اب سمجھ میں آتا ہے
کی زمین پر
جو ہو گیا وہ ہونا تھا
کھو گیا جو کھونا تھا
وہ وقت تو اب چلا گیا
جو تم کو یوں رُلا گیا
یاد کر کے کیا حاصل
جو تم کو یوں بُھلا گیا
یاد سے ہی چھن چھن کر
ہوی جو غم سے چھلنی ہے
کہانی نے آگے بڑھنا ہے
اب یہیں سے چلنی ہے
نہ الزام کسی پہ دھرنا ہے
جو کرنی وہ ہی بھرنی ہے
جو ہو چُکا وہ ہو چُکا
تلافی بھی تو کرنی ہے
گُزری سے جو سیکھا ہے
کچھ نہ کچھ تو کرنا ہے
اس زندگی کو جینا ہے
جیتے جی ہی مرنا ہے
اُمید پھر جگانی ہے
مایوسیوں سے لڑنا ہے
اب کرو گے کیا نعمان
بتاؤ اب کیا کرنا ہے
More General Poetry






