بحر ہستی سے بھی جی گھبرا گیا

Poet: عارف نقشبندی By: مصدق رفیق, Karachi

بحر ہستی سے بھی جی گھبرا گیا
بے کسی بس اب کنارا آ گیا

کم ہوا کرتے ہیں ایسے خوش نصیب
تجھ پہ مر کر جن کو جینا آ گیا

میرا مٹ جانا تماشا تھا کوئی
آپ سے یہ کس طرح دیکھا گیا

دکھ برے دل کی کہانی کچھ نہ پوچھ
پھول کے ہنسنے پہ رونا آ گیا

صبح کرنا شام غم کا الاماں
شمع کو دانتوں پسینہ آ گیا

خوش رہو تم چل بسا بیمار غم
عمر بھر کی الجھنیں سلجھا گیا

راہ الفت میں ہے مرنا زندگی
درد منزل تک مجھے پہنچا گیا

موسم گل بھی ہے آنکھوں میں خزاں
دل ہی کیا بیٹھا چمن مرجھا گیا

وہ ہوئے کیا آنکھ سے عارفؔ نہاں
ساری دنیا میں اندھیرا چھا گیا
 

Rate it:
Views: 174
25 Apr, 2025