بد گمانی کا یہ موسم بے یقینی کی فضا
تنہا تنہا آدمی اور بھیڑ سے دم گھٹ رہا
میری آنکھوں میں سمندر سا بسا رہتا جو تھا
ساتھ اپنے ریت کے سارے گھروندے لے گیا
نرگسیت کا لق و دق صحرا ہر اک رہنما
خود پرستی اور قید ذات کا مارا ہوا
بزدلی کو خوبصورت نام دے کر ضبط کا
گنگ ہے سارا شہر کس خوف میں ہے مبتلا
شیشے کی تحریر سے نظریں چراتے ہیں سبھی
آگہی کا آئینہ بھی ایسا پتھر بن گیا
میں ہوا کی نبض پر رکھتا کہاں تک انگلیاں
ایک لمحہ چوکا اور طوفاں اڑا کر لے گیا
موت کے سائے ہیں رقصاں وامق ان دیواروں پر
سچ کے پیغمبر نے جن پر نام اپنا لکھ دیا