میں بھی ہوں کم ظرف تو بھی ہے کم ظرف
تجھ میں کوئی فرق نہ مجھ میں کوئی فرق
ہوتے ہیں جس کشتی کے ملاح دو
ہوجاتے ہیں اس کشتی کے مسافر غرق
اب کہ یہ ناؤ پار نہ لاگے گی
کڑکی ہے آسمانوں میں ایسی کوئی برق
ہر خاص عام میں اب یہ چرچا کر دو
کرلیا اب ہم نے بھی ان سے تعلق ترک
اے آتش نمرود کے پوجنے والو سنو
اول بھی ہے نرگ آخر بھی ہے نرگ
مدت سے جسکی شاخوں پہ پرندے نہیں چہکے
کوئی دیکھے احسن جاکر اب کیسا ہے وہ برگ