بزم و بازار میں ہر جا ٹھہرا
دل اکیلا تھا، اکیلا ٹھہرا
دوڑتے پیڑ گرے میری طرح
ساتھ چلتا ہوا صحرا ٹھہرا
یاد ٹھہرے ہوئے دریا کابہاؤ
فکر بہتا ہوا دریا ٹھہرا
گرد آلود ہوا دشت ادب
جب بھی احساس کا دریا ٹھہرا
بد نظر صاحب دیدہ کہلائے
میں نے گھورا نہیں اندھا ٹھہرا
ضبط و تہذیب کی قدریں ٹھہریں
میں نہیں چیخا وہاں گونگا ٹھہرا
تاڑ کی طرح میں سیدھا سچا
ترچھا دیکھا مجھے ترچھا ٹھہرا
ابتداء میں کئی ہم جیسے تھے
آخر کوئی نہ ہم سا ٹھہرا
آنکھ پہ شیشہ صد رنگ چڑھا
دھوپ کا رنگ سنہرا ٹھہرا
نقرعی قہقہہ شرما کے بولا
رنگ و نور کا دریا ٹھہرا