بسات یار مے یہ سفر خوب رہا
کچھ دیر رہا مجھ مے مگر خوب رہا
چار دن کی زندگی بانٹ دی عاشقی مے
شاعری مے تو ظفر. خوب رہا
اس شعلہ بیانی سے تو داغ بھی رہ نہ سکے
لفظوں کی بندش مے جگر خوب رہا
کیا اقبال نے یورپ کے کلیساؤں کو چاک
شکوہ بھی خدا سے ارباب نظر خوب رہا
رہا حقایات کی صورت مے فیض و فراض کے آنگھن مے
گلشن میر و غالب مے بھی بسر خوب رہا
بھر دیا تنز کو آداب سخن مے رضا
شاعری کی زمیں میں ساغر کا اثر خوب رہا