بساط اپنی سے بڑھ کے تڑی لگاتے ہیں
غریب لوگ بھی شرطیں بڑی لگاتے ہیں
ہمارے دیس کا قانون بھی نرالا ہے
غریب پرتو یہ شرطیں کڑی لگاتے ہیں
امیر کو تو پکڑتے نہیں ہیں پولسیے
غریب لوگوں کو ہی ہتھکڑی لگاتے ہیں
سکون سے نہیں سو پاتا اس لیے ہی میں
یہ ہجر غم مرے اندر جھڑی لگاتے ہیں
مرے تو سجنا کو پہچان دور سے لو گے
وہ اپنے ہاتھ میں اکثر گھڑی لگاتے ہیں
تپاک سے ہمیں شہزاد ملتے ہیں لیکن
مگر وہ پیار سے سب کو چھڑی لگاتے ہیں