بد نظروں کا سایہ جو مرے یار پڑے گا
بستر پہ کئی روز تُو بیمار پڑے گا
اک خستہ سا گھر سر ترے اسوار رہے گا
حالانکہ تری راہ میں دربار پڑے گا
کردے گی یہ حالات کی سختی تجھےکندن
چھوٹی سی عمر میں بھی بڑا بار پڑے گا
تم نین میں مستی کی طرح مجھ کو جگہ دو
دوچار قدم یہ دل نادار پڑے گا
یہ امن و سکوں اتنا بھی آساں نہیں سن لے
جانا تجھے سرحد کے بھی اُس پار پڑے گا
اظہار کا پھر وقت ملے وَاللہُ اَعلَم
مل جائے تو کس بھا ؤ یہ اقرار پڑے گا
میں وصل کی بابت میں بتاتا ہوں ابھی سے
گھُمْسان کا رَن آپ سے سرکار پڑے گا
رحمت تری کیسے نہ بھلا جوش میں آئے
قدموں میں جو مفتی سا گنہ گار پڑے گا