اگر ہم نغمہ وطن گائیں بغاوت ہے
زبان پر جور و جفا لائیں بغاوت ہے
شکار غمزہ خون ریز ہو کر ہم سر مقتل
اگر سینے پہ ہنس کر گولیاں کھائیں بغاوت ہے
کسی مظلوم کا افسانہ ناگفتہ بہ سن کر
اگر ہم فطر تن بے چین ہو جائیں بغاوت ہے
دل اندوہ گیں اور نالہ بیباک کیا معنی
ذرا آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئیں بغاوت ہے
اگر دامن بچا کر ہم فصائے خار ساماں سے
نسیم صبح کی صورت گزرجائیں بغاوت ہے
وہ دستور ہمایونی وہ آئیں جہانگیری
اگر اب بھول کر بھی یاد آہیں بغاوت ہے
اگر شیخ و برہمن کو ہم آہنگ وطن کر کے
کوئی بھولی ہوئی تاریخ دہرائیں بغاوت ہے
نگاہ سینہ چاکان چمن میں بجلیاں بھر کر
چمن میں زنذگی کی لہر دوڑائیں بغاوت ہے
جین لالہ و گل سے شہرار رنگ و بولے کر
اگر ہم سینہ شبنم کو گرمائیں بغاوت ہے
چراغ ہر گل ترکو فروغ جاوداں دیکر
فضائے گلستان پر نور برسائی بغاوت ہے
غرض وہ بجلیاں بھی ہم پہ برسائیںتو برسائیں
اگر ہم داغ دل بھی ان کو دکھلائیں بغاوت ہے