بن تیرے کبھی چاند ہے ابھرا نہیں دیکھا
سورج بھی کبھی وقت پہ ڈھلتا نہیں دیکھا
ویسے تو کئی اور ملے پر حسن کے پیکر
اے جان تمنا کوئی تجھ سا نہیں دیکھا
بن تیرے مرا کونسا دن چین سے گزرا
کس شخص نے مجھ کو کبھی روتا نہیں دیکھا
معمولی سی وحشت بھی اسے خون رلا دے
جس نے بھی کبھی عشق کا صحرا نہیں دیکھا
جیسے کہ ضرورت ہو ستاروں کی قمر کو
وہ شخص کبھی شہر میں تنہا نہیں دیکھا
جس میں ہو لحد تک ہی وفاداری کا جذبہ
ہم نے تو کوئی شخص بھی ایسا نہیں دیکھا
یہ ہجر جو باقرؔ مرے دلبر کی عطا ہے
یہ سوچ کے میخانے کا رستہ نہیں دیکھا