ایک خُوشبو ہے جو رَستوں مِیں لئیے پِھرتا ہوں
راز کی بات کو لوگوں مِیں لئیے پِھرتا ہوں
کُھل ہی جائے گا کبھی حُسنِ سماعت مُجھ پر
اپنی آواز کو گلیوں مِیں لئیے پِھرتا ہوں
ایک وعدہ ہے جِسے بھول گیا ہے کوئی
ایک امانت ہے جو یادوں مِیں لئیے پِھرتا ہوں
ایک منظر ہے جِسے وقت بدل دیتا ہے
ایک صُورت ہے جو خوابوں مِیں لئیے پِھرتا ہوں
رَت جگے صِرف تُمھارا ہی مقّدر تو نہیں
میں بھی اِک خواب کو آنکھوں مِیں لئیے پِھرتا ہوں
شاید اب کے کوئی تعمیر کی صُورت نِکلے
کب سے اِک شہر کو سوچوں میں لئیے پِھرتا ہوں