گستاخ کو عذاب سے بندر بنا دیا
جذبہ وفاء کا مرد قلندر بنا دیا
رحمت خدا کی پھر نہیں پلٹی کبھی وہاں
مسجد کو ڈھا کے جس جگہ مندر بنا دیا
مٹی کا ایک زرہ بھی ڈوبا نہیں جہاں
عاشق نے وہ ہی نین سمندر بنا دیا
پرنالہ گھر کے باہر ہی رکھتے ہیں سارے لوگ
تم نے وہ اپنے گھر کے ہی اندر بنا دیا
سو سو جتن کے جتن کے بعد ملا اسکو راستہ
خوش ہوکے اس نے خود کو جتندر بنا دیا
اقبال کے مزار کا پوچھا گیا سوال
کچھ نے کراچی کچھ نے جالندھر بتا دیا
اچھے بھلے شریف سے انسان کو یہاں
مچھڑ بنا دیا کہ مچھندر بنا دیا
بھولے سے ایک بار جو تعریف کی اشہر
بیگم نے پھر سے آلو چقندر بنا دیا