بندگی میں تیری میں اس قدر دھلتا گیا
نفرتوں کا زہر میری چشم تر تک آ گیا
اس قدر رویا کہ سارا درد خالی ہو گیا
اس قدر کھویا کہ آخرکار تجھکو پا گیا
یہ مقام شکر ہے یا آزمائش کی گھڑی
منزلوں کے پاس آ کر راستوں کو بھا گیا
قربتوں سے لڑ جھگڑ کر اک بحرہجر میں
میں تمہارا نام لے کر دور تک بہتا گیا
زندگی تجھ سے فقط یہ شکایت ہے کہ میں
اس قدر ناداں نہ تھاجس قدر سمجھا گیا
اسکی چاہت پر مجھے بھی ناز آخر کیوں نہ ہو
آبروئے عشق میں جو مجھ سے دور ہوتا گیا
جو میرا زاد سفر تھے وہ رہے ہیں ہمسفر
وہ سفر کی دھول تھا بن کہ ہوا اڑتا گیا