بولو اُسے کہ کب کا دسمبر گزر گیا
جو کہہ رہا تھا کیا وہ ستمگر چلا گیا
اتنی مِلی ہیں تلخِی زماں کہ اب
جو ڈر تھا کہیں اندر باہر چلا گیا
جب سے گیا ہے وہ درپیش ہیں مسائل
شائد اُسی کے ساتھ مقدر چلا گیا
بہت دنوں کے بعد سکوں کہیں مِلا مجھے
بہت دنوں کے بعد میں گھر چلا گیا
جانے کیا مجبوری اُسے حائل تھی سُہیل
ٹھہرنا وہ چاہتا تھا مگر چلا گیا