کس آگ میں میں جل رہا ہوں
شعلہ نہیں پھر کیوں سلگ رہا ہوں
بوند ہوں پانی کی
دریا میں رہتا ہوں
نہ چھیڑے موج دریا جسے
ساحل کی تمنا نہیں اسے
دور کوئی پیاسا کہہ رہا ہے
پانی، پانی کہاں بہہ رہا ہے
نہیں میں نہیں ہوں اس قابل
بوند ہوں پانی کی لا حاصل
روز آنسو بن جاتا ہوں
بہتے دریا میں مل جاتا ہوں
مست لہروں سے نالاں ہوں
ان کی مستی میں گم ہونے والا ہوں
جانتا ہوں میرے درد کی دوا نہیں
یہ نصیب ہے، نہیں کوئی گلہ نہیں
وہ دن بھی آئے گا
اک دن آسماں پھٹ جائے گا
کانپے گا میری فریاد سے
پانی پانی ہر طرف پانی
اک دریا امٹ آئے گا
چاند بے قرار ہوکر تڑپے گا
اس دن تو طوفاں آئے گا
کالے بادل
بجلیوں کی چمک
افق پہ مدھم مدھم روشنی
یہ تند و تیز ہوا
پھرتجھ میں ہمت نہ ہوگی
کہ تو روکے مجھے
میں اک بوند پانی کی
ہوا میں اٹھ جاوں گا
اس دن ہر پیاسے کی پیاس بجھے گی
سینے میں لگی آگ بجھے گی
آج میں خوش ہوں کہ
میں آزاد ہوں