ہو تيرے بياباں کی ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ بخارا
جس سمت ميں چاہے صفت سيل رواں چل
وادی يہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا
غيرت ہے بڑی چيز جہان تگ و دو ميں
پہناتی ہے درويش کو تاج سر دارا
حاصل کسی کامل سے يہ پوشيدہ ہنر کر
کہتے ہيں کہ شيشے کو بنا سکتے ہيں خارا
افراد کے ہاتھوں ميں ہے اقوام کی تقدير
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
محروم رہا دولت دريا سے وہ غواص
کرتا نہيں جو صحبت ساحل سے کنارا
ديں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ايسی تجارت ميں مسلماں کا خسارا
دنيا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پيش
تہذيب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسا
ابليس کو يورپ کی مشينوں کا سہارا
تقدير امم کيا ہے، کوئی کہہ نہيں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا
اخلاص عمل مانگ نيا گان کہن سے
شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدارا