بچھڑ جاؤ گے تم نے فیصلہ تو کر لیا ہوتا
کچھ ہم سے مل کے باہم مشورہ تو کر لیا ہوتا
نہ سینے میں دبا یہ غم کبھی ناسور بن پاتا
کبھی اے کاش تم سے کچھ گلہ تو کر لیا ہوتا
اگر تھی آرزو شدت سے عکسِ یار کی تم کو
ذرا اس دل کو تم نے آینہ تو کر لیا ہوتا
توقع تھی اگر تم کو وفاؤں کی کویٔ مجھ سے
شروع تم نے وفا کا سلسلہ تو کر لیا ہوتا
اگر تم چاہتے تھے عمر بھر کا ساتھ ہو مجھ سے
متعین درمیاں کچھ فاصلہ تو کر لیا ہوتا
خبر تھی گر تمہیں درپیش ہے لمبا سفر عذراؔ
شروع سےمنتخب اک راستہ تو کر لیا ہوتا