کھو کر تجھ کو بکھر گئی ہوں
میں تو خود سے بچھڑ گئی ہوں
عکس میں نہ ہی سائے میں
خود کو دیکھوں کدھر گئی ہوں
تیرا عکس اور تیری باتیں
دیکھوں سنوں جدھر گئی ہوں
میرے ہمسفر تیرے پیچھے
ادھر گئی کبھی ادھر گئی ہوں
تیرے گھر تک آنے والے
ان رستوں میں بکھر گئی ہوں
جب جب دل میں آس جگی ہے
تب تب میں بھی نکھر گئی ہوں
دل کے ٹکرے سمٹ گئے ہیں
لیکن میں کچھ بکھر گئی ہوں
عظمٰی تیری باتیں سن کر
میںبھی کچھ کچھ سدھر گئی ہوں