ہَر شے ہے پُر ملال بڑی تیز دُھوپ ہے
ہَر لب پہ ہے سوال بڑی تیز دُھوپ ہے
چکرا کے گِر نہ جاؤں میں اِس تیز دُھوپ میں
مُجھ کو ذرا سنبھال بڑی تیز دُھوپ ہے
دے حکم بادلوں کو خیابان نشین ہُوں
جام و سبُو اُچھال بڑی تیز دُھوپ ہے
ممکن ہے ابرِ رحمتِ یزداں برس پڑے
زُلفوں کی چھائوں ڈال بڑی تیز دُھوپ ہے
اب شہر آرزو میں وہ رعنائیاں کہاں
ہیں گُل کدے نڈھال بڑی تیز دُھوپ ہے
سمجھی ہے جس کو سائیہ اُمید عقلِ خام
ساغر کا ہے خیال بڑی تیز دُھوپ ہے