نہ جانے کیسے بسر اب یہ زندگی ہو گی
بھرے جہاں میں فقط تیری ہی کمی ہو گی
کھلیں تو ہوں گی وہ باد صبا کے جھونکوں سے
اداس ترے لیے پر کلی کلی ہو گی
حسین ماضی کی یادیں تجھے رلائیں گی
وطن کو چھوڑ کے جب دور جا چکی ہو گی
کچھ الجھنوں کی بھی زنجیر ہو گی پیروں میں
کچھ اس کی راہ میں حائل برادری ہو گی
بچے بھنور سے تو ساحل پہ زندگی نہ ملی
کسی سے ایسی نہ قسمت نے دل لگی کی ہو گی
فراق میں تو یہ دل بے قرار ہے ، شاید
وصال یار میں بھی مجھ کو تشنگی ہو گی
تھے مصلیحت کے تقاضے ہی اس کے پیش نگاہ
وگرنہ اتنی بھی نہ اس کو چپ لگی ہو گی
گلہ نہیں ہے مجھے تیری بے وفائی کا
مری وفا ہی میں شاید کوئی کمی ہو گی
خوشی ملی بھی تو زاہد اداسیاں اوڑھے
کبھی کسی کو نہ ایسی خوشی ملی ہو گی