بھول گیا میں اپنے ہی شہر کی گلیاں
نہ وہ لوگ نہ گھر نہ پرانی حویلیاں
وہ پیپل کے درختوں کی چھاؤں بھی نہیں
نہ وہ معصوم بھولے بچوں کی اٹکیلیاں
پرانی تہذیب جانے کہاں دفن ہے
اس کے مرقد کی ملتی نہیں نشانیاں
وہ وضع داری وہ لحاظ نہ ہمدردیاں
نایاب ہو گئیں ہیں اب یہ خوبیاں
وہی انساں ہے وہی نام وہی چہرہ
جرم غریبی کی سزا میں ملتی ہیں سختیاں
دختران وطن کے سروں سے چادر کہاں گئی
قرب قیامت ہے پوری ہو رہی ہیں نشانیاں