ہم کہ بے آب جلتے ہوئے صحرا میں
بیج کر جو طلب گار گندم کے ہیں
یہ تو صحرا ہے جھلسا ہی دے گا اسے
ہم نے جو بویا ہے گر نہ سینچا ابھی
اس کی خو کا بدلنا تو ممکن نہیں
یہ سرابوں کو پانی میں نہ ڈھالے گا
ریت اس کی نہ مٹی بنی ہے کبھی
نہ ہی خوشبو کے پھولوں کو دے گی جنم
تیز آندھی ہے صحراؤں کی اک ادا
نہ بنے گی کبھی وہ نسیم سحر
یاد رکھنا اگر اب بھی سنبھلے نہ ہم
وقت کا گدھ کہ بیٹھا ہوا منتظر
اندہ لاشیں ہماری وہ نوچے گا جب
اس کے ہم ذات چھوٹے سے چھوٹے کوے
جو ابھی ڈر کے بیٹھے ہیں منڈیر پر
منتظر ہیں کہ کب ان کو موقع ملے
چن کے ہر بیج بویا کبھی ہم نے جو
صرف دوزخ بھریں گے نہیں پیٹ کا
دہرتی کے سوتوں سے چوس لیں گے نمو
فصل دیتی زمیں بانجھ کر ڈالیں گے
کشت ہی سارا ویران کر جائیں گے