بہار آئی مگر تم نہ آئے
آنا تھا جس کو مگر کیوں وہ نہ آئے
سوچتے ہیں اب ہم
کہ آنے والے تم کیوں نہ آئے
انتظار کرتے ہیں جن کا ہر پل
ہم کو یوں تڑپانے والے کیوں تم نہ آئے
تنہائی کا عادی کر دیا
اپنوں سے بھی بیگانہ کر دیا
مجھے یوں پاگل کر دینے والے کیوں تم نہ آئے
اگر آنا نہیں تھا تم کو
کیوں جاتے ہوئے واپسی کا اشارہ کر گئے تم
دیکھو آج بھی ہم تیرا ہی انتظار کرتے ہیں
اِن انتظار کے لمحوں کو ختم کرنے والے تم کیوں نہ آئے
میں ہوں اُدھورا بہت تمہارے بنا
مجھے اُدھورا کر کے جانے والے تم کیوں نہ آئے
جلدی سے آ کر مجھے مکمل کر دو
میں ہوں اُداس بہت اُداس مسعود
مجھے جلدی آ کر اُداس سے تبسم کر دو