بہار زیست اب بے کیف ھو گئی ھے
لگتا ھے قسمت خلاف ھو گئی ھے
انکی بے اعتنائی کا گلہ کیا کریں
دنیا درد سے صاف ھو گئی ھے
جس رت میں نہ ھو خندہءگل نہ نغمہءبلبل
وہ فصل بہاراں خزاں کی حلیف ھو گئ ھے
آؤ درد کی محفل پھر سے سجا کر دیکھیں
کیا خاک دل سیلاب سے شفاف ھو گئ ھے؟
معلوم ھوا در در کی ٹھوکریں کھاتے ھوئے
دنیا اپنے پنہاں رازوں سے منکشف ھو گئ ھے
آستان عشق کی راہ میں بھٹکتے بھٹکتے
حسن روح قلب دنیا سے بے خوف ھو گئ ھے