بہار کو زرد خزاں کا سامنا کرنا ہوگا
ہر تخت نشیں کو تختے پہ اترنا ہوگا
منزلِ زیست ہے بہرحال موت
اک روز ہر ذی روح کو مرنا ہوگا
راستے کبھی منزل نہیں ہوتے راہ رو
دشتِ دنیا میں کچھ پل کاٹھہرنا ہوگا
اے بندہ ء غافل ابھی یہ سوچ زرا
پھر تو چاہے گاوقت ،مگر نہ ہوگا
خواہشوں کے بے لگام گھوڑوں سے
اے مسافر ِ فردوس تجھ کو اُترنا ہوگا
روشن جبیں والوں کی سر ِ حشر
نگاہ ِ پُر نورمیں کوئی ڈر نہ ہوگا
حقیقت توعیاں ہے یہ تردد کیسا
اب ہو سکتا ہے صبر، پھر نہ ہوگا
سوچورضا وقتِ نزاع کیسا ہو
زباں پہ جاری کلمہ اگر نہ ہوگا
دستِ ظالم کو اگر روک دے تُو
پھر کسی پہ ظلم و جبر نہ ہوگا
آرزو ہے جسے سکونِ لا فنا کی
اُسےتسلیم و رضا سے سنورنا ہوگا