دل سے تیرے کرم کا تو سایا نہ گیا
ایک در کے سوا اور کہیں آیا نہ گیا
چاند کو دیکھا تو پھر اس کی یاد آنے لگی
تا سحر پھر وہ میرے دل سے بھلایا نہ گیا
آتش ہجر لگا کر وہ ہمیں چھوڑ گئے
جسم کیا بچتا ہم سے دل بھی بچایا نہ گیا
اک ذرا دل لگی پہ ہم سے خفا ہو بیٹھے
ایسے روٹھے ہیں کہ ہم سے منایا نہ گیا
دیار دل میں بہاروں نے گل کھلائے تھے
خزاں نے ایسے لوٹا پھر یہ بسایا نہ گیا
وہ میرے دل میں کچھ دن کیا رہے ہیں
پھر کوئی مہمان ان کے بعد بلایا نہ گیا
بکھر گیا ہے دل کا آشیاں جدائی سے
یہ اجڑا شہر دوبارہ سے بسایا نہ گیا
جو شاہکار خامہء چشم نے بنایا تھا
اسکا کوئی نقش دل سے مٹایا نہ گیا
عظمٰی جو شعلے دل میں دہک رہے ہیں
ان شعلوں کو اشکوں سے بجھایا نہ گیا