بہت خاموش تھا منہ زور دھاروں میں کوئی تنہا
رہا تشنہ ہمیشہ نم کناروں میں کوئی تنہا
زمین و آسماں میں ایک قدرِ مشترک دیکھی
ہزاروں میں کوئی تنہا ستاروں میں کوئی تنہا
کھلا ہے آرزو کے روپ میں شاخِ تمنا پر
گلابِ خوش ادا بن کر بہاروں میں کوئی تنہا
غرض کے شہر کی اُس بِھیڑ کا دیکھا ہر اک منظر
دکھائی تُو دیا جیسے نظاروں میں کوئی تنہا
جو دل کی آنکھ سے دیکھوں میں عاشی آنکھ بھر آئے
تصور میں مرے ہے سوچ غاروں میں کوئی تنہا