بہت ملول ہوں غمگین ہوں اداس ہوں میں
مجھے یقین نہیں ہے کہ تیرے پاس ہوں میں
بھلانا چاہو گے لیکن بھلا نہ پاؤ گے
کہ اب تمہاری کہانی کا اقتباس ہوں میں
زمانہ چھیڑے گا مجھ کو تو مجھ سے کیا لے گا
کسی غریب کی ٹوٹی ہوئی سی آس ہوں میں
مجھے کسی نے بھی لٹتے ہوئے نہیں دیکھا
کہ ٹوٹا ٹوٹا ہوں زخمی ہوں بد حواس ہوں میں
نہ اب اٹھاتا ہے کوئی نہ منہ لگاتا ہے
شراب خانے کا ٹوٹا ہوا گلاس ہوں میں
میں چہرے پڑھ لیا کرتا ہوں دیکھ کر منظرؔ
میں غم سمجھتا ہوں سب کا کہ غم شناس ہوں میں