بہکی بہکی سوچیں ہیں
کبھی آسمان کو چھؤں
کبھی ہواؤں کے سنگ جھوموں
اپنے ہی سپنوں میں
اپنی ہی ذات کو ڈھنڈوں
کبھی بات بات پر ہنسوں
کبھی سال بھر میں رؤوں
کبھی رات بھر نہ سوؤں
کبھی اپنے ی لفظوں میں
کسی راز کو میں ڈھونڈوں
کیسی بہکی بہکی سوچیں ہیں
کبھی حجر کو وصال لکھوں
کبھی سورج کو مہتاب لکھوں
جو دیکھا ہے برسوں سے
ان آنکھوں نے
کبھی اس خواب کو ڈھونڈوں
بہکی بہکی سوچیں ہیں