بیداد کا ساماں کرتا ہے مائل بہ جفا ہو جاتا ہے
اظہارِ تمنّا کرتے ہی بندہ بھی خدا ہوجاتا ہے
ہاں یہ بھی طریقہ اچھا ہے تم خواب میں ملتے ہو مجھ سے
آتے بھی نہیں غم خانے تک وعدہ بھی وفا ہوجاتا ہے
پہنچے نہ اذیّت کچھ ان کو ایسا نہ ہو کوئی آنچ آئے
نکلی جو لبوں سے آہ تو دل مصروفِ دعا ہو جاتا ہے
اس رشکِ مسیحا کی اخترؔ میں لاج تو رکھ لیتا ہوں مگر
اس دردِ جگر کو کیا کہیے کچھ اور سِوا ہوجاتا ہے