دل کو اپنی ھی الجھنیں ہیں بس
کون اپنائے گا رواجوں کہ
کون کھیلے روائتوں کے کھیل
کون سمجھا کرے مزاجوں کو
کیسے مردہ نصاب اپنائے
کون پڑھتا ہے ان کتابوں
کےا کسی آرزو کو شام و سحر
پوجنے سے مراد ملتی ہے
کےا چمن میں بہار آنے پر
ہر کلی پھول بن کے کھلتی ہے
ہر دےکر ہوا کے ہاتھوں میں
پھول کتنے صبا مسلتی ہے
کیسے سے کائنات کی گردش
ساری زیروزبر نگلتی ہے
کیسے سانسوں کی ڈور کھنچتی ہے
کیسے نبضوں کی تال چلتی ہے
پھر بھی دیکر اجل کے ہاتھ میں ہاتھ
زندگی روز ہاتھ ملتی ہے